وہاں پہنچ کے ہر اک نقش غم پرایا تھا
وہ راستہ کہ جہاں حوصلہ بھی ہارا تھا
بہت عزیز تھے اس کو سفر کے ہنگامے
وہ سب کے ساتھ چلا تھا مگر اکیلا تھا
وہ زخم زخم تھا تیرہ شبی کے دامن میں
لبوں پہ پھول نظر میں کرن بھی رکھتا تھا
عجیب شخص تھا اس کو سمجھنا مشکل ہے
کنارے آب کھڑا تھا مگر وہ پیاسا تھا
اسے خبر تھی کہ آشوب آگہی کیا ہے
وہ درد و غم جسے اپنی زباں میں کہتا تھا
غزل
وہاں پہنچ کے ہر اک نقش غم پرایا تھا
خلیل تنویر