EN हिंदी
جگر مراد آبادی شیاری | شیح شیری

جگر مراد آبادی شیر

147 شیر

آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں

جگر مراد آبادی




آئی جب ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی

جگر مراد آبادی




آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا
آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا

جگر مراد آبادی




آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے

جگر مراد آبادی




آباد اگر نہ دل ہو تو برباد کیجیے
گلشن نہ بن سکے تو بیاباں بنائیے

جگر مراد آبادی




عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی




آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

People meet each other, fairly frequently
But, meeting of hearts, seldom does one see

جگر مراد آبادی




آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں

جگر مراد آبادی




آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے
جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے

جگر مراد آبادی