EN हिंदी
کہیں تو لٹنا ہے پھر نقد جاں بچانا کیا | شیح شیری
kahin to luTna hai phir naqd-e-jaan bachana kya

غزل

کہیں تو لٹنا ہے پھر نقد جاں بچانا کیا

عرفانؔ صدیقی

;

کہیں تو لٹنا ہے پھر نقد جاں بچانا کیا
اب آ گئے ہیں تو مقتل سے بچ کے جانا کیا

ان آندھیوں میں بھلا کون ادھر سے گزرے گا
دریچے کھولنا کیسا دئیے جلانا کیا

جو تیر بوڑھوں کی فریاد تک نہیں سنتے
تو ان کے سامنے بچوں کا مسکرانا کیا

میں گر گیا ہوں تو اب سینے سے اتر آؤ
دلیر دشمنو ٹوٹے مکاں کو ڈھانا کیا

نئی زمیں کی ہوائیں بھی جان لیوا ہیں
نہ لوٹنے کے لیے کشتیاں جلانا کیا

کنار آب کھڑی کھیتیاں یہ سوچتی ہیں
وہ نرم رو ہے ندی کا مگر ٹھکانا کیا