EN हिंदी
حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا | شیح شیری
haq fath-yab mere KHuda kyun nahin hua

غزل

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

عرفانؔ صدیقی

;

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا
تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

جب حشر اسی زمیں پہ اٹھائے گئے تو پھر
برپا یہیں پہ روز جزا کیوں نہیں ہوا

وہ شمع بجھ گئی تھی تو کہرام تھا تمام
دل بجھ گئے تو شور عزا کیوں نہیں ہوا

واماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں
دروازہ آسمان کا وا کیوں نہیں ہوا

وہ شعلہ ساز بھی اسی بستی کے لوگ تھے
ان کی گلی میں رقص ہوا کیوں نہیں ہوا

آخر اسی خرابے میں زندہ ہیں اور سب
یوں خاک کوئی میرے سوا کیوں نہیں ہوا

کیا جذب عشق مجھ سے زیادہ تھا غیر میں
اس کا حبیب اس سے جدا کیوں نہیں ہوا

جب وہ بھی تھے گلوئے بریدہ سے نالہ زن
پھر کشتگاں کا حرف رسا کیوں نہیں ہوا

کرتا رہا میں تیرے لیے دوستوں سے جنگ
تو میرے دشمنوں سے خفا کیوں نہیں ہوا

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں
جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا