جیسے ہر چہرے کی آنکھیں سر کے پیچھے آ لگیں
سب کے سب الٹے ہی قدموں سے سفر کرنے لگے
اقبال ساجد
اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار
لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی گالی ہو گئی
اقبال ساجد
غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا
اقبال ساجد
فکر معیار سخن باعث آزار ہوئی
تنگ رکھا تو ہمیں اپنی قبا نے رکھا
اقبال ساجد
ایک بھی خواہش کے ہاتھوں میں نہ مہندی لگ سکی
میرے جذبوں میں نہ دولہا بن سکا اب تک کوئی
اقبال ساجد
درویش نظر آتا تھا ہر حال میں لیکن
ساجدؔ نے لباس اتنا بھی سادہ نہیں پہنا
اقبال ساجد
بگولہ بن کے سمندر میں خاک اڑانا تھا
کہ لہر لہر مجھے تند خو بھی ہونا تھا
اقبال ساجد
بڑھ گیا ہے اس قدر اب سرخ رو ہونے کا شوق
لوگ اپنے خون سے جسموں کو تر کرنے لگے
اقبال ساجد
اپنی انا کی آج بھی تسکین ہم نے کی
جی بھر کے اس کے حسن کی توہین ہم نے کی
اقبال ساجد