ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئی
جس کے دروازے کی قسمت میں نہیں دستک کوئی
یوں تو ہونے کو سبھی کچھ ہے مرے دل میں مگر
اس دکاں پر آج تک آیا نہیں گاہک کوئی
وہ خدا کی کھوج میں خود آخری حد تک گیا
خود کو پانے کی مگر کوشش نہ کی انتھک کوئی
باغ میں کل رات پھولوں کی حویلی لٹ گئی
چشم شبنم سے چرا کر لے گیا ٹھنڈک کوئی
دے گیا آنکھوں کو فرش راہ بننے کا صلہ
دے گیا بینائی کو سوغات میں دیمک کوئی
ایک بھی خواہش کے ہاتھوں میں نہ مہندی لگ سکی
میرے جذبوں میں نہ دولہا بن سکا اب تک کوئی
وہ بھی ساجدؔ تھا مرے جذبوں کی چوری میں شریک
اس کی جانب کیوں نہیں اٹھی نگاہ شک کوئی
غزل
ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئی
اقبال ساجد