EN हिंदी
ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئی | شیح شیری
aise ghar mein rah raha hun dekh le be-shak koi

غزل

ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئی

اقبال ساجد

;

ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئی
جس کے دروازے کی قسمت میں نہیں دستک کوئی

یوں تو ہونے کو سبھی کچھ ہے مرے دل میں مگر
اس دکاں پر آج تک آیا نہیں گاہک کوئی

وہ خدا کی کھوج میں خود آخری حد تک گیا
خود کو پانے کی مگر کوشش نہ کی انتھک کوئی

باغ میں کل رات پھولوں کی حویلی لٹ گئی
چشم شبنم سے چرا کر لے گیا ٹھنڈک کوئی

دے گیا آنکھوں کو فرش راہ بننے کا صلہ
دے گیا بینائی کو سوغات میں دیمک کوئی

ایک بھی خواہش کے ہاتھوں میں نہ مہندی لگ سکی
میرے جذبوں میں نہ دولہا بن سکا اب تک کوئی

وہ بھی ساجدؔ تھا مرے جذبوں کی چوری میں شریک
اس کی جانب کیوں نہیں اٹھی نگاہ شک کوئی