وہ دوست تھا تو اسی کو عدو بھی ہونا تھا
لہو پہن کے مجھے سرخ رو بھی ہونا تھا
سنہری ہاتھ میں تازہ لہو کی فصل نہ دی
کہ اپنے حق کے لیے جنگجو بھی ہونا تھا
بگولہ بن کے سمندر میں خاک اڑانا تھی
کہ لہر لہر مجھے تند خو بھی ہونا تھا
مرے ہی حرف دکھاتے تھے میری شکل مجھے
یہ اشتہار مرے روبرو بھی ہونا تھا
کشش تھی پھول سی اس میں تو لا محالہ مجھے
اسیر رنگ گرفتار بو بھی ہونا تھا
سزا تو ملنا تھی مجھ کو برہنہ لفظوں کی
زباں کے ساتھ لبوں کو رفو بھی ہونا تھا
سفر کا بوجھ اٹھانے سے پیشتر ساجدؔ
مزاج دان رہ جستجو بھی ہونا تھا
غزل
وہ دوست تھا تو اسی کو عدو بھی ہونا تھا
اقبال ساجد