دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا
اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا
غربت بھی اپنے پاس ہے اور بھوک ننگ بھی
کیسے کہیں کہ اس نے عطا کچھ نہیں کیا
چپ چاپ گھر کے صحن میں فاقے بچھا دئیے
روزی رساں سے ہم نے گلہ کچھ نہیں کیا
پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں
اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا
غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا
بستی میں خاک اڑائی نہ صحرا میں ہم گئے
کچھ دن سے ہم نے خلق خدا کچھ نہیں کیا
مانگی نہیں کسی سے بھی ہمدردیوں کی بھیک
ساجدؔ کبھی خلاف انا کچھ نہیں کیا
غزل
دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا
اقبال ساجد