موند کر آنکھیں تلاش بحر و بر کرنے لگے
لوگ اپنی ذات کے اندر سفر کرنے لگے
مانجھیوں کے گیت سن کر آ گیا دریا کو جوش
ساحلوں پہ رقص تیزی سے بھنور کرنے لگے
بڑھ گیا ہے اس قدر اب سرخ رو ہونے کا شوق
لوگ اپنے خون سے جسموں کو تر کرنے لگے
باندھ دے شاخوں سے تو مٹی کے پھل کاغذ کے پھول
یہ تقاضا راہ میں اجڑے شجر کرنے لگے
گاؤں میں کچے گھروں کی قیمتیں بڑھنے لگیں
شہر سے نقل مکانی اہل زر کرنے لگے
جیسے ہر چہرے کی آنکھیں سر کے پیچھے آ لگیں
سب کے سب الٹے ہی قدموں سے سفر کرنے لگے
اب پڑھے لکھے بھی ساجدؔ آ کے بیکاری سے تنگ
شب کو دیواروں پہ چسپاں پوسٹر کرنے لگے
غزل
موند کر آنکھیں تلاش بحر و بر کرنے لگے
اقبال ساجد