خوف دل میں نہ ترے در کے گدا نے رکھا
دن کو کشکول بھرا شب کو سرہانے رکھا
فکر معیار سخن باعث آزار ہوئی
تنگ رکھا تو ہمیں اپنی قبا نے رکھا
رات فٹ پاتھ پہ دن بھر کی تھکن کام آئی
اس کا بستر بھی کیا سر پہ بھی تانے رکھا
خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں
مجھ کو محفوظ مری ماں کی دعا نے رکھا
یہ الگ بات سمندر پہ وہ برسی ساجدؔ
اور کسی کھیت کو پیاسا نہ گھٹا نے رکھا
غزل
خوف دل میں نہ ترے در کے گدا نے رکھا
اقبال ساجد