EN हिंदी
خوف دل میں نہ ترے در کے گدا نے رکھا | شیح شیری
KHauf dil mein na tere dar ke gada ne rakkha

غزل

خوف دل میں نہ ترے در کے گدا نے رکھا

اقبال ساجد

;

خوف دل میں نہ ترے در کے گدا نے رکھا
دن کو کشکول بھرا شب کو سرہانے رکھا

فکر معیار سخن باعث آزار ہوئی
تنگ رکھا تو ہمیں اپنی قبا نے رکھا

رات فٹ پاتھ پہ دن بھر کی تھکن کام آئی
اس کا بستر بھی کیا سر پہ بھی تانے رکھا

خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں
مجھ کو محفوظ مری ماں کی دعا نے رکھا

یہ الگ بات سمندر پہ وہ برسی ساجدؔ
اور کسی کھیت کو پیاسا نہ گھٹا نے رکھا