اس سال شرافت کا لبادہ نہیں پہنا
پہنا ہے مگر اتنا زیادہ نہیں پہنا
اس نے بھی کئی روز سے خواہش نہیں اوڑھی
میں نے بھی کئی دن سے ارادہ نہیں پہنا
دوڑے ہیں مگر صحن سے باہر نہیں دوڑے
گھر ہی میں رہے پاؤں میں جادہ نہیں پہنا
آباد ہوئے جب سے یہاں تنگ نظر لوگ
اس شہر نے ماحول کشادہ نہیں پہنا
درویش نظر آتا تھا ہر حال میں لیکن
ساجدؔ نے لباس اتنا بھی سادہ نہیں پہنا
غزل
اس سال شرافت کا لبادہ نہیں پہنا
اقبال ساجد