وہ نظر آتا ہے مجھ کو میں نظر آتا نہیں
خوب کرتا ہوں اندھیرے میں نظارے رات کو
امام بخش ناسخ
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
امام بخش ناسخ
زلفوں میں کیا قید نہ ابرو سے کیا قتل
تو نے تو کوئی بات نہ مانی مرے دل کی
امام بخش ناسخ
ہم مے کشوں کو ڈر نہیں مرنے کا محتسب
فردوس میں بھی سنتے ہیں نہر شراب ہے
امام بخش ناسخ
آتی جاتی ہے جا بہ جا بدلی
ساقیا جلد آ ہوا بدلی
امام بخش ناسخ
اے اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے
آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا
امام بخش ناسخ
عین دانائی ہے ناسخؔ عشق میں دیوانگی
آپ سودائی ہیں جو کہتے ہیں سودائی مجھے
امام بخش ناسخ
دریائے حسن اور بھی دو ہاتھ بڑھ گیا
انگڑائی اس نے نشے میں لی جب اٹھا کے ہاتھ
امام بخش ناسخ
دیکھ کر تجھ کو قدم اٹھ نہیں سکتا اپنا
بن گئے صورت دیوار ترے کوچے میں
امام بخش ناسخ