آ گیا جب سے نظر وہ شوخ ہرجائی مجھے
کو بہ کو در در لیے پھرتی ہے رسوائی مجھے
کام عاشق کو کسی کی عیب بینی سے نہیں
حسن بینی کو خدا نے دی ہے بینائی مجھے
جور سہتا ہوں بتوں کے ناتوانی کے سبب
دل اٹھا لوں اس قدر کب ہے توانائی مجھے
جس طرح آتا ہے پیری میں جوانی کا خیال
وصل کی شب یاد روز ہجر میں آئی مجھے
گنتی ایک اک نام کی ہر گور میں مردے ہیں دفن
بعد مردن بھی ہوئی دشوار تنہائی مجھے
مثل ساغر بزم عالم میں میں کب خنداں ہوا
کس لیے دیتا ہے گردش چرخ مینائی مجھے
عین دانائی ہے ناسخؔ عشق میں دیوانگی
آپ سودائی ہیں جو کہتے ہیں سودائی مجھے
غزل
آ گیا جب سے نظر وہ شوخ ہرجائی مجھے
امام بخش ناسخ