یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے
زمیں یاں کی چہارم آسماں ہے
خدا پنہاں ہے عالم آشکارا
نہاں ہے گنج ویرانہ عیاں ہے
دل روشن ہے روشن گر کی منزل
یہ آئینہ سکندر کا مکاں ہے
تکلف سے بری ہے حسن ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے
پسیجے گا کبھی تو دل کسی کا
ہمیشہ اپنی آہوں کا دھواں ہے
برنگ بو ہوں گلشن میں میں بلبل
بغل غنچے کے میرا آشیاں ہے
شگفتہ رہتی ہے خاطر ہمیشہ
قناعت بھی بہار بے خزاں ہے
چمن کی سیر پر ہوتا ہے جھگڑا
کمر میری ہے دست باغباں ہے
بہت آتا ہے یاد اے صبر مسکیں
خدا خوش رکھے تجھ کو تو جہاں ہے
الٰہی ایک دل کس کس کو دوں میں
ہزاروں بت ہیں یاں ہندوستاں ہے
یقیں ہوتا ہے خوشبوئی سے اس کے
کسی گل رو کا غنچہ عطرداں ہے
وطن میں اپنے اہل شوق کی طرح
سفر میں روز و شب ریگ رواں ہے
سحر ہووے کہیں شبنم کرے کوچ
گل و بلبل کا دریا درمیاں ہے
سعادت مند قسمت پر ہیں شاکر
ہما کو مغز بادام استخواں ہے
دل بے تاب جو اس میں گرے ہیں
ذقن جاناں کا پارہ کا کنواں ہے
جرس کے ساتھ دل رہتے ہیں نالاں
مرے یوسف کا عاشق کارواں ہے
نہ کہہ رندوں کو حرف سخت واعظ
درشت اہل جہنم کی زباں ہے
قد محبوب کو شاعر کہیں سرو
قیامت کا یہ اے آتشؔ نشاں ہے
غزل
یہ کس رشک مسیحا کا مکاں ہے
حیدر علی آتش