چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقین ہو گیا شبنم کو آفتاب آیا
ان انکھڑیوں میں اگر نشۂ شراب آیا
سلام جھک کے کروں گا جو پھر حجاب آیا
کسی کے محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا
شب فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا
جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا
عدم میں ہستی سے جا کر یہی کہوں گا میں
ہزار حسرت زندہ کو گاڑ داب آیا
چکور حسن مہ چار دہ کو بھول گیا
مراد پر جو ترا عالم شباب آیا
محبت مے و معشوق ترک کر آتشؔ
سفید بال ہوئے موسم خضاب آیا
غزل
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
حیدر علی آتش