EN हिंदी
اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے (ردیف .. و) | شیح شیری
ai be-KHudi Thahr ki bahut din guzar gae

غزل

اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے (ردیف .. و)

فانی بدایونی

;

اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
مجھ کو خیال یار کہیں ڈھونڈتا نہ ہو

ساحل پہ جا لگے گی یوں ہی کشتی حیات
اپنا خدا تو ہے جو نہیں نا خدا نہ ہو

اچھا حجاب ہے کہ جب آتے ہیں خواب میں
پھر پھر کے دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو

دل ہی نہیں ہے جس میں نہ ہو درد عشق کا
وہ درد ہی نہیں ہے جو ہر دم سوا نہ ہو