اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
مجھ کو خیال یار کہیں ڈھونڈتا نہ ہو
ساحل پہ جا لگے گی یوں ہی کشتی حیات
اپنا خدا تو ہے جو نہیں نا خدا نہ ہو
اچھا حجاب ہے کہ جب آتے ہیں خواب میں
پھر پھر کے دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
دل ہی نہیں ہے جس میں نہ ہو درد عشق کا
وہ درد ہی نہیں ہے جو ہر دم سوا نہ ہو
غزل
اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے (ردیف .. و)
فانی بدایونی