دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں
میرے روٹھے ہوئے مہمان چلے آتے ہیں
ان کے آتے ہی ہوا حسرت و ارماں کا ہجوم
آج مہمان پہ مہمان چلے آتے ہیں
آپ ہوں ہم ہوں مئے ناب ہو تنہائی ہو
دل میں رہ رہ کے یہ ارمان چلے آتے ہیں
اس نے یہ کہہ کے مجھے دور ہی سے روک دیا
آپ سے جان نہ پہچان چلے آتے ہیں
روٹھ بیٹھے ہیں مگر چھیڑ چلی جاتی ہے
کبھی پیغام کبھی پان چلے آتے ہیں
یہ رہا حضرت بیخودؔ کا مکاں آؤ چلیں
ابھی دم بھر میں مری جان چلے آتے ہیں
غزل
دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں
بیخود دہلوی