بیتاب رہیں ہجر میں کچھ دل تو نہیں ہم
تڑپیں جو تجھے دیکھ کے بسمل تو نہیں ہم
ہیں یاد بہت مکر و فریب ایسے ہمیں بھی
مٹھی میں جو آ جائیں تری دل تو نہیں ہم
اب آپ کوئی کام سکھا دیجئے ہم کو
معلوم ہوا عشق کے قابل تو نہیں ہم
کہنے کو وفادار تمہیں لاکھ میں کہہ دیں
دل سے مگر اس بات کے قائل تو نہیں ہم
کیوں خضر کے پیرو ہوں تری راہ طلب میں
آوارہ و گم کردۂ منزل تو نہیں ہم
کہتے ہیں تمنائے شہادت کو وہ سن کر
کیوں قتل کریں آپ کو قاتل تو نہیں ہم
ہیں دل میں اگر طالب دیدار تمہیں کیا
کچھ تم سے کسی بات کے سائل تو نہیں ہم
وہ پوچھتے ہیں مجھ سے یہ مضموں تو نیا ہے
تیری ہی طرح سے کہیں بیدل تو نہیں ہم
ہم جاتے ہیں یا حضرت دل آپ سدھاریں
جائیں گے اب اس بزم میں شامل تو نہیں ہم
ان آنکھوں سے ہم نے بھی تو دیکھا ہے زمانہ
ہم سے نہ کہو غیر پہ مائل تو نہیں ہم
مرنے کے لیے وقت کوئی تاک رہے ہیں
اس کام کو سمجھے ابھی مشکل تو نہیں ہم
کہتے ہیں تجھے دیکھ کے آتا ہے ہمیں رشک
بیٹھے ہوئے دشمن کے مقابل تو نہیں ہم
ہر سانس میں رہتا ہے تری یاد کا کھٹکا
بیخودؔ ہیں تو ہوں کام سے غافل تو نہیں ہم
غزل
بیتاب رہیں ہجر میں کچھ دل تو نہیں ہم
بیخود دہلوی