پچھتاؤگے پھر ہم سے شرارت نہیں اچھی
یہ شوخ نگاہی دم رخصت نہیں اچھی
سچ یہ ہے کہ گھر سے ترے جنت نہیں اچھی
حوروں کی ترے سامنے صورت نہیں اچھی
بھولے سے کہا مان بھی لیتے ہیں کسی کا
ہر بات میں تکرار کی عادت نہیں اچھی
کیوں کل کی طرح وصل میں تشویش ہے اتنی
تم آج بھی کہہ دو کہ طبیعت نہیں اچھی
جب اتنی سمجھ ہے تو سمجھ کیوں نہیں جاتے
میں بھی یہی کہتا ہوں کہ حجت نہیں اچھی
حوروں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا
کیوں اب بھی کہوگے تری نیت نہیں اچھی
پہنچا ہے قیامت میں بھی افسانۂ الفت
اتنی بھی کسی بات کی شہرت نہیں اچھی
ہم عیب سمجھتے ہیں ہر اک اپنے ہنر کو
کیا کیجئے مجبور ہیں قسمت نہیں اچھی
مل آئیے دیکھ آئیے آج آپ بھی جا کر
بیخودؔ کی کئی روز سے حالت نہیں اچھی
غزل
پچھتاؤگے پھر ہم سے شرارت نہیں اچھی
بیخود دہلوی