بات کرنے کی شب وصل اجازت دے دو
مجھ کو دم بھر کے لئے غیر کی قسمت دے دو
تم کو الفت نہیں مجھ سے یہ کہا تھا میں نے
ہنس کے فرماتے ہیں تم اپنی محبت دے دو
ہم ہی چوکے سحر وصل منانا ہی نہ تھا
اب ہے یہ حکم کہ جانے کی اجازت دے دو
مفت لیتے بھی نہیں پھیر کے دیتے بھی نہیں
یوں سہی خیر کہ دل کی ہمیں قیمت دے دو
کم نہیں پیر خرابات نشیں سے بیخودؔ
مے کشو تو اسے مے خانے کی خدمت دے دو
غزل
بات کرنے کی شب وصل اجازت دے دو
بیخود دہلوی