EN हिंदी
عزیز حامد مدنی شیاری | شیح شیری

عزیز حامد مدنی شیر

37 شیر

گہرے سرخ گلاب کا اندھا بلبل سانپ کو کیا دیکھے گا
پاس ہی اگتی ناگ پھنی تھی سارے پھول وہیں ملتے ہیں

عزیز حامد مدنی




ابھی تو کچھ لوگ زندگی میں ہزار سایوں کا اک شجر ہیں
انہیں کے سایوں میں قافلے کچھ ٹھہر گئے بے قیام کہنا

عزیز حامد مدنی




حسن کی شرط وفا جو ٹھہری تیشہ و سنگ گراں کی بات
ہم ہوں یا فرہاد ہو آخر عاشق تو مزدور رہا

عزیز حامد مدنی




جب آئی ساعت بے تاب تیری بے لباسی کی
تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر

عزیز حامد مدنی




جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے
وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا

عزیز حامد مدنی




کاذب صحافتوں کی بجھی راکھ کے تلے
جھلسا ہوا ملے گا ورق در ورق ادب

عزیز حامد مدنی




کہہ سکتے تو احوال جہاں تم سے ہی کہتے
تم سے تو کسی بات کا پردا بھی نہیں تھا

عزیز حامد مدنی




خلل پذیر ہوا ربط مہر و ماہ میں وقت
بتا یہ تجھ سے جدائی کا وقت ہے کہ نہیں

عزیز حامد مدنی




خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات
رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا جاتا

عزیز حامد مدنی