ابھی تو کچھ لوگ زندگی میں ہزار سایوں کا اک شجر ہیں
انہیں کے سایوں میں قافلے کچھ ٹھہر گئے بے قیام کہنا
عزیز حامد مدنی
ایسی کوئی خبر تو نہیں ساکنان شہر
دریا محبتوں کے جو بہتے تھے تھم گئے
عزیز حامد مدنی
الگ سیاست درباں سے دل میں ہے اک بات
یہ وقت میری رسائی کا وقت ہے کہ نہیں
عزیز حامد مدنی
بہار چاک گریباں میں ٹھہر جاتی ہے
جنوں کی موج کوئی آستیں میں ہوتی ہے
عزیز حامد مدنی
بیٹھو جی کا بوجھ اتاریں دونوں وقت یہیں ملتے ہیں
دور دور سے آنے والے رستے کہیں کہیں ملتے ہیں
عزیز حامد مدنی
دلوں کی عقدہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں
یہ آدمی کی خدائی کا وقت ہے کہ نہیں
عزیز حامد مدنی
دو گز زمیں فریب وطن کے لیے ملی
ویسے تو آسماں بھی بہت ہیں زمیں بہت
عزیز حامد مدنی
ایک طرف روئے جاناں تھا جلتی آنکھ میں ایک طرف
سیاروں کی راکھ میں ملتی رات تھی اک بے داری کی
عزیز حامد مدنی
گہرے سرخ گلاب کا اندھا بلبل سانپ کو کیا دیکھے گا
پاس ہی اگتی ناگ پھنی تھی سارے پھول وہیں ملتے ہیں
عزیز حامد مدنی