بیٹھو جی کا بوجھ اتاریں دونوں وقت یہیں ملتے ہیں
دور دور سے آنے والے رستے کہیں کہیں ملتے ہیں
وہم بھی ہو جاتا ہے دل کو لیکن اس میں تعجب کیا ہے
ایسے دشت کہ جن میں شمعیں آپ ہی آپ جلیں، ملتے ہیں
گہرے سرخ گلاب کا اندھا بلبل سانپ کو کیا دیکھے گا
پاس ہی اگتی ناگ پھنی تھی سارے پھول وہیں ملتے ہیں
کان میں موتی ہاتھ میں کنگن پھول چنبیلی کا جوڑے میں
کیا کیا رنگ جمانے والے آنکھیں جن سے بسیں، ملتے ہیں
تیرے جسم کی دھار کٹار سی آنکھ کے پردوں میں تڑپی تھی
خاکستر آنکھوں میں کیا کیا ان لمحوں کے نگیں ملتے ہیں
تم کو جھوٹا ٹھہرا سکتا کس میں اتنا جس ہے لیکن
ایسے لوگ بہت ہوتے ہیں وعدہ کر کے نہیں ملتے ہیں
کہنہ سرائے کی روشنیوں نے کہہ ہی دیا دیوٹ کے دیوں سے
آؤ آؤ ٹھہرو ٹھہرو مہماں روز نہیں ملتے ہیں
سر کا سودا پاؤں کی گردش جو بھی سبب ہو نہ ملنے کا
تم تو صاحب کیا ملتے ہو ملتے ہیں تو ہمیں ملتے ہیں
غزل
بیٹھو جی کا بوجھ اتاریں دونوں وقت یہیں ملتے ہیں
عزیز حامد مدنی