حکایت حسن یار لکھنا حدیث مینا و جام کہنا
ابھی وہی کار عاشقاں ہے سکوت غم کا کلام کہنا
افق تغیر کی تیز لو سے پگھل رہا ہے بدل رہا ہے
مگر اس احوال واقعی کو لکھیں نہ وہ میرے نام کہنا
ہزار ہاتھوں سے میں نے جس کو سنبھال رکھا تھا زندگی میں
چراغ بر کف بساط دل پر کھڑی ہوئی ہے وہ شام کہنا
اگر تری آستین تر کو خبر نہیں داستان غم کی
زمانہ عنوان تازہ تر سے سنا گیا ناتمام کہنا
دھویں میں اک طائر نواگر نے آتش گل پہ جان دے دی
رگ گلو میں جلی ہوئی لے چمک گئی زیر دام کہنا
ہم ایسے جادہ طراز صحرا نکل ہی آتے ہیں چند آخر
سخن کو اسلوب زندگی کا دیا ہے ہم نے ہی نام کہنا
کبھی کبھی تو لہک سا اٹھتا ہے برق و باراں کی چشمکوں میں
کسی ادائے وصال ساماں کا خنجر بے نیام کہنا
اتر گیا دل میں زہر کاکل نثار اک سرو دل ستاں کے
فسون چارہ گری سے گزرا محبتوں کا پیام کہنا
خیال یاران کو بہ کو سے نظر ہے اک ماتم نظارہ
دم حریفان بے سبو سے نفس ہے بے ننگ و نام کہنا
ابھی تو کچھ لوگ زندگی میں ہزار سایوں کا اک شجر ہیں
انہیں کے سایوں میں قافلے کچھ ٹھہر گئے بے قیام کہنا
خدا تجھے عافیت کی آبادیوں میں نورس صفیر رکھے
ادھر کے دیوار و در سلامت مری طرف سے سلام کہنا
غزل
حکایت حسن یار لکھنا حدیث مینا و جام کہنا
عزیز حامد مدنی