EN हिंदी
ایک ہی شہر میں رہتے بستے کالے کوسوں دور رہا | شیح شیری
ek hi shahr mein rahte baste kale koson dur raha

غزل

ایک ہی شہر میں رہتے بستے کالے کوسوں دور رہا

عزیز حامد مدنی

;

ایک ہی شہر میں رہتے بستے کالے کوسوں دور رہا
اس غم سے ہم اور بھی ہارے وہ بھی تو مجبور رہا

کال تھا اشکوں کا آنکھوں میں لیکن تیری یاد نہ پوچھ
کیا کیا موتی میں بھی فراہم کرنے پر مجبور رہا

وہ اور اتنا پریشاں خاطر ربط غیر کی بات نہیں
لیکن اس کے چپ رہنے سے دل کو وہم ضرور رہا

ہم ایسے ناکام وفا کے غول میں آکر بیٹھے ہو
دنیا کی تقدیر بدلنا جن کا اک دستور رہا

حسن کی شرط وفا جو ٹھہری تیشہ و سنگ گراں کی بات
ہم ہوں یا فرہاد ہو آخر عاشق تو مزدور رہا

وقت کی بات ہے یاد آ جانا لیکن اس کی بات نہ پوچھ
یوں تو لاکھوں باتیں نکلیں تیرا ہی مذکور رہا

اے میرے خورشید شبی کیا وہم طلوع و غروب تجھے
ایک تری گردش ایسی تھی خانۂ دل بے نور رہا

عشق بھی مہر بہ لب گزرا ہے دنیا کی کیا جرأت تھی
اس کی نیچی نظروں میں بھی ایسا سخت غرور رہا

ہم سے اس کا ربط جنوں تھا ایک ہنسی کی بات سی تھی
ہم کو آخر کیوں یہ خبط سعیٔ نا مشکور رہا

صبح سے چلتے چلتے آخر شام ہوئی آوارۂ دل
اب میں کس منزل میں پہنچا اب گھر کتنی دور رہا