زنجیر پا سے آہن شمشیر ہے طلب
شاید تری گلی میں نہ پہنچے یہ شور اب
آخر جھلک اٹھی وہ گریباں کے چاک سے
جس انتظار صبح میں گزری تھی میری شب
یاد آئی دل کو تیرے در نیم وا کی رات
رکنے لگے قدم جو سر راہ بے سبب
یہ شان دلبری ہے کہ وہ جب بھی مل گیا
پایا مزاج دوست کو آسودۂ طرب
اس تازہ دم ہوا میں مرے ماہ نیم ماہ
اس بام سے جدا نہ کبھی ہو طلوع شب
آنکھیں تو کھول دور تغیر ہے ہم نشیں
کچھ کھڑکیاں تو کھول گئی ہے ہوائے شب
چلنے کو ہے ہوائے گل و لالہ کی جگہ
اک نقب سی لگاتی ہوئی صرصر عقب
آنکھوں پہ ایک جادوئے ظلمت سا چھا گیا
ہول آفریں ہیولوں کے جنبش میں آئے لب
کاذب صحافتوں کی بجھی راکھ کے تلے
جھلسا ہوا ملے گا ورق در ورق ادب
دنیا بدل گئی ہے حساب اور ہو گئے
رمز تغیر رخ عالم ہوئے ہیں سب
صدیوں میں جا کے بنتا ہے آخر مزاج دہر
مدنیؔ کوئی تغیر عالم ہے بے سبب
غزل
زنجیر پا سے آہن شمشیر ہے طلب
عزیز حامد مدنی