لکھی ہوئی جو تباہی ہے اس سے کیا جاتا
ہوا کے رخ پہ مگر کچھ تو ناخدا جاتا
جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے
وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا
کشید مے پہ ہے کیسا فساد حاکم شہر
تری گرہ سے ہے کیا بندۂ خدا جاتا
خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات
رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا جاتا
مثال برق جو خواب جنوں میں چمکی تھی
اس آگہی کے تعاقب میں ہوں چلا جاتا
لباس تازہ کے خواہاں ہوئے ہیں ذرہ و سنگ
اک آئنہ ہے کوئی دور سے دکھا جاتا
عجب تماشۂ صحرا ہے چاک محمل پر
غبار قیس ہے پردہ کوئی گرا جاتا
جو آگ بجھ نہ سکے گی اسی کے دامن میں
ہر ایک شہر ہے ایجاد کا بسا جاتا
غزل
لکھی ہوئی جو تباہی ہے اس سے کیا جاتا
عزیز حامد مدنی