مری آنکھیں گواہ طلعت آتش ہوئیں جل کر
پہاڑوں پر چمکتی بجلیاں نکلیں ادھر چل کر
زباں کا ذائقہ بگڑا ہوا ہے مے پلا ساقی
سموم دشت نے سب رکھ دئے کام و دہن تل کر
رموز زندگی سیکھے ہیں میرے شوق وحشت نے
کئی صاحب نظر زندانیوں کے بیچ میں پل کر
یہ کس ذوق نمو کو آج دہرانے بہار آئی
لہو ہم سرفروشوں کا جبین ناز پر مل کر
وہ جن کی خو سے کل اک ابر تر خواب محبت تھا
انہی کو رکھ دیا پھر کیوں کھلے ہاتھوں سے مل دل کر
رخ دوراں پہ ہے اک نیل سا کرب تغیر سے
ورق تانبے کا کھو دیتا ہے رنگت آگ میں گل کر
ہری شمعیں سی انگوروں کی بیلوں میں جو چمکیں تھیں
وہی اب سرخ رنگوں میں جلی ہیں جام میں ڈھل کر
وہی اک روئے آتش رنگ ہے ہلکی سی دستک ہے
سمندر پار کی موج ہوا جاتی نہیں ٹل کر
جب آئی ساعت بے تاب تیری بے لباسی کی
تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر
مہک میں زہر کی اک لہر بھی خوابیدہ رہتی ہے
ضدیں آپس میں ٹکراتی ہیں فرق مار و صندل کر
شب افسانہ خواں تو شہر کی آخر ہوئی مدنیؔ
کہاں جاتے ہو تم نکلے ہوئے یوں نیند میں چل کر
غزل
مری آنکھیں گواہ طلعت آتش ہوئیں جل کر
عزیز حامد مدنی