EN हिंदी
کس قدر کم اساس ہیں کچھ لوگ | شیح شیری
kis qadar kam-asas hain kuchh log

غزل

کس قدر کم اساس ہیں کچھ لوگ

عزیز بانو داراب وفا

;

کس قدر کم اساس ہیں کچھ لوگ
صرف اپنا قیاس ہیں کچھ لوگ

جن کو دیوار و در بھی ڈھک نہ سکے
اس قدر بے لباس ہیں کچھ لوگ

مطمئن ہیں بہت ہی دنیا سے
پھر بھی کتنے اداس ہیں کچھ لوگ

وہ برے ہوں بھلے ہوں جیسے ہوں
کچھ ہوں لوگوں کو راس ہیں کچھ لوگ

موسموں کا کوئی اثر ہی نہیں
ان پہ جنگل کی گھاس ہیں کچھ لوگ

تیرگی میں نظر نہیں آتے
سائے کی طرح پاس ہیں کچھ لوگ