ایک دیے نے صدیوں کیا کیا دیکھا ہے بتلائے کون
چھوڑو اگلے وقتوں کے قصے پھر سے دہرائے کون
اب بھی کھڑی ہے سوچ میں ڈوبی اجیالوں کا دان لئے
آج بھی ریکھا پار ہے راون سیتا کو سمجھائے کون
اپنا اپنا آسن چھوڑ کے ہر مورت اٹھ آئی ہے
سونے کی دیواروں میں رہ کر پاتھر کہلائے کون
جس نے دیے کی کالک کو بھی ماتھے کا سندور کیا
اپنے گھر کی اس دیوار سے اپنا بھید چھپائے کون
جانے کتنے راز کھلیں جس دن چہروں کی راکھ دھلے
لیکن سادھو سنتوں کو دکھ دے کر پاپ کمائے کون
ایک نیا سپنا بنتا ہے اور بن کر اس سوچ میں ہے
صدیوں سے آپس میں الجھے دھاگوں کو سلجھائے کون
اب بھی بزرگوں کی باتیں سن کر اچھا تو لگتا ہے
پر ان گرتی دیواروں سے اپنی پیٹھ لگائے کون
غزل
ایک دیے نے صدیوں کیا کیا دیکھا ہے بتلائے کون
عزیز بانو داراب وفا