EN हिंदी
ایک دیے نے صدیوں کیا کیا دیکھا ہے بتلائے کون | شیح شیری
ek diye ne sadiyon kya kya dekha hai batlae kaun

غزل

ایک دیے نے صدیوں کیا کیا دیکھا ہے بتلائے کون

عزیز بانو داراب وفا

;

ایک دیے نے صدیوں کیا کیا دیکھا ہے بتلائے کون
چھوڑو اگلے وقتوں کے قصے پھر سے دہرائے کون

اب بھی کھڑی ہے سوچ میں ڈوبی اجیالوں کا دان لئے
آج بھی ریکھا پار ہے راون سیتا کو سمجھائے کون

اپنا اپنا آسن چھوڑ کے ہر مورت اٹھ آئی ہے
سونے کی دیواروں میں رہ کر پاتھر کہلائے کون

جس نے دیے کی کالک کو بھی ماتھے کا سندور کیا
اپنے گھر کی اس دیوار سے اپنا بھید چھپائے کون

جانے کتنے راز کھلیں جس دن چہروں کی راکھ دھلے
لیکن سادھو سنتوں کو دکھ دے کر پاپ کمائے کون

ایک نیا سپنا بنتا ہے اور بن کر اس سوچ میں ہے
صدیوں سے آپس میں الجھے دھاگوں کو سلجھائے کون

اب بھی بزرگوں کی باتیں سن کر اچھا تو لگتا ہے
پر ان گرتی دیواروں سے اپنی پیٹھ لگائے کون