وہ یہ کہہ کہہ کے جلاتا تھا ہمیشہ مجھ کو
اور ڈھونڈے گا کہیں میرے علاوہ مجھ کو
کس قدر اس کو سرابوں نے ستایا ہوگا
دور ہی سے جو سمجھتا رہا چشمہ مجھ کو
میری امید کے سورج کو ڈبو کے ہر شام
وہ دکھاتا رہا دریا کا تماشہ مجھ کو
جب کسی رات کبھی بیٹھ کے مے خانے میں
خود کو بانٹے گا تو دے گا مرا حصہ مجھ کو
پھر سجا دے گا وہ یادوں کے عجائب گھر میں
سوچ کر عہد جنوں کا کوئی سکہ مجھ کو
میرے احساس کے دوزخ میں سلگنے کے لئے
چھوڑ دے گا مرے خوابوں کا فرشتہ مجھ کو
پھر یہ ہوگا کہ کسی دن کہیں کھو جائے گا
اک دوراہے پہ بٹھا کے مرا رستہ مجھ کو
لوگ کہتے ہیں کہ جادو کی سڑک ہے ماضی
مڑ کے دیکھوں گی تو ہو جائے گا سکتہ مجھ کو
سبز موسم کی عنایت کا بھروسا بھی نہیں
کب اڑا دے یہ ہوا جان کے پتا مجھ کو
وقت حاکم ہے کسی روز دلا ہی دے گا
دل کے سیلاب زدہ شہر پہ قبضہ مجھ کو
میں نہ لیلیٰ ہوں نہ رکھتا ہے وہ مجنوں کا مزاج
اس نے چاہا ہے مگر میرے علاوہ مجھ کو
غزل
وہ یہ کہہ کہہ کے جلاتا تھا ہمیشہ مجھ کو
عزیز بانو داراب وفا