موسم کا آہ و نالہ سے اندازہ کیجئے
تازہ ہوا پہ بند نہ دروازہ کیجئے
انجم رومانی
آئے گی ہم کو راس نہ یک رنگئ خلا
اہل زمیں ہیں ہم ہمیں دن رات چاہیئے
انجم رومانی
کسی بھی حال میں راضی نہیں ہے دل ہم سے
ہر اک طرح کا یہ کافر بہانہ رکھتا ہے
انجم رومانی
کس کی جبیں پہ ہیں یہ ستارے عرق عرق
کس کے لہو سے چاند کا دامن ہے داغ داغ
انجم رومانی
جب تک کہ ہیں زمانے میں ہم سے خراب لوگ
مسجد کہیں کہیں کوئی مے خانہ چاہئے
انجم رومانی
دل سے اٹھتا ہے صبح و شام دھواں
کوئی رہتا ہے اس مکاں میں ابھی
انجم رومانی
دیتے نہیں سجھائی جو دنیا کے خط و خال
آئے ہیں تیرگی میں مگر روشنی سے ہم
انجم رومانی
دیکھوگے تو آئے گی تمہیں اپنی جفا یاد
خاموش جسے پاؤگے خاموش نہ ہوگا
انجم رومانی
اور کچھ دن خراب ہو لیجے
سود اپنا ہے اس زیاں میں ابھی
انجم رومانی