دن ہو کہ رات، کنج قفس ہو کہ صحن باغ
آلام روزگار سے حاصل نہیں فراغ
رغبت کسے کہ لیجئے عیش و طرب کا نام
فرصت کہاں کہ کیجیے صہبا سے پر ایاغ
ویرانۂ حیات میں آسودہ خاطری
کس کو ملا اس آہوئے رم خوردہ کا سراغ
آثار کوئے دوست ہیں اور پا شکستگی
خوشبوئے زلف یار ہے اور ہم سے بے دماغ
کس کی جبیں پہ ہیں یہ ستارے عرق عرق
کس کے لہو سے چاند کا دامن ہے داغ داغ
کرتے ہیں کسب نور اسی تیرگی سے ہم
انجمؔ ہیں دل کے داغ گہرہائے شب چراغ
غزل
دن ہو کہ رات، کنج قفس ہو کہ صحن باغ
انجم رومانی