دکھی دلوں کے لیے تازیانہ رکھتا ہے
ہر ایک شخص یہاں اک فسانہ رکھتا ہے
کسی بھی حال میں راضی نہیں ہے دل ہم سے
ہر اک طرح کا یہ کافر بہانہ رکھتا ہے
ازل سے ڈھنگ ہیں دل کے عجیب سے شاید
کسی سے رسم و رہ غائبانہ رکھتا ہے
کوئی تو فیض ہے کوئی تو بات ہے اس میں
کسی کو دوست یونہی کب زمانہ رکھتا ہے
فقیہ شہر کی باتوں سے در گذر بہتر
بشر ہے اور غم آب و دانہ رکھتا ہے
معاملات جہاں کی خبر ہی کیا اس کو
معاملہ ہی کسی سے رکھا نہ رکھتا ہے
ہمیں نے آج تک اپنی طرف نہیں دیکھا
توقعات بہت کچھ زمانہ رکھتا ہے
قلندری ہے کہ رکھتا ہے دل غنی انجمؔ
کوئی دکاں نہ کوئی کارخانہ رکھتا ہے
غزل
دکھی دلوں کے لیے تازیانہ رکھتا ہے
انجم رومانی