ہر چند انہیں عہد فراموش نہ ہوگا
لیکن ہمیں اس وقت کوئی ہوش نہ ہوگا
دیکھوگے تو آئے گی تمہیں اپنی جفا یاد
خاموش جسے پاؤگے خاموش نہ ہوگا
گزرے ہیں وہ لمحے کہ سدا یاد رہیں گے
دیکھا ہے وہ عالم کہ فراموش نہ ہوگا
ہم اپنی شکستوں سے ہیں جس طرح بغل گیر
یوں قبر سے بھی کوئی ہم آغوش نہ ہوگا
پی جاتے ہیں زہر غم ہستی ہو کہ مے ہو
ہم سا بھی زمانے میں بلانوش نہ ہوگا
ہونے کو تو دنیا میں کئی پردہ نشیں ہیں
لیکن تری صورت کوئی روپوش نہ ہوگا
پاؤگے نہ آزاد غم انجم کسی دل کو
ہوگا غم فردا جو غم دوش نہ ہوگا
غزل
ہر چند انہیں عہد فراموش نہ ہوگا
انجم رومانی