EN हिंदी
ہم سے بھی گاہے گاہے ملاقات چاہیئے | شیح شیری
humse bhi gahe gahe mulaqat chahiye

غزل

ہم سے بھی گاہے گاہے ملاقات چاہیئے

انجم رومانی

;

ہم سے بھی گاہے گاہے ملاقات چاہیئے
انسان ہیں سبھی تو مساوات چاہیئے

اچھا چلو خدا نہ سہی ان کو کیا ہوا
آخر کوئی تو قاضی حاجات چاہیئے

ہے عاقبت خراب تو دنیا ہی ٹھیک ہو
کوئی تو صورت گزر اوقات چاہیئے

جانے پلک جھپکنے میں کیا گل کھلائے وقت
ہر دم نظر بہ صورت حالات چاہیئے

آئے گی ہم کو راس نہ یک رنگئ خلا
اہل زمیں ہیں ہم ہمیں دن رات چاہیئے

وا کر دئیے ہیں علم نے دریائے معرفت
اندھوں کو اب بھی کشف و کرامات چاہیئے

جب قیس کی کہانی اب انجم کی داستاں
دنیا کو دل لگی کے لیے بات چاہیئے