ہم سے بھی گاہے گاہے ملاقات چاہیئے
انسان ہیں سبھی تو مساوات چاہیئے
اچھا چلو خدا نہ سہی ان کو کیا ہوا
آخر کوئی تو قاضی حاجات چاہیئے
ہے عاقبت خراب تو دنیا ہی ٹھیک ہو
کوئی تو صورت گزر اوقات چاہیئے
جانے پلک جھپکنے میں کیا گل کھلائے وقت
ہر دم نظر بہ صورت حالات چاہیئے
آئے گی ہم کو راس نہ یک رنگئ خلا
اہل زمیں ہیں ہم ہمیں دن رات چاہیئے
وا کر دئیے ہیں علم نے دریائے معرفت
اندھوں کو اب بھی کشف و کرامات چاہیئے
جب قیس کی کہانی اب انجم کی داستاں
دنیا کو دل لگی کے لیے بات چاہیئے
غزل
ہم سے بھی گاہے گاہے ملاقات چاہیئے
انجم رومانی