EN हिंदी
اختر شیرانی شیاری | شیح شیری

اختر شیرانی شیر

46 شیر

ہے قیامت ترے شباب کا رنگ
رنگ بدلے گا پھر زمانے کا

اختر شیرانی




اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم
نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں

اختر شیرانی




اک وہ کہ آرزؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر
اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو!

اختر شیرانی




ان وفاداری کے وعدوں کو الٰہی کیا ہوا
وہ وفائیں کرنے والے بے وفا کیوں ہو گئے

اختر شیرانی




انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے

اختر شیرانی




عشق کو نغمۂ امید سنا دے آ کر
دل کی سوئی ہوئی قسمت کو جگا دے آ کر

اختر شیرانی




کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں

befriend the thorns for they will be loyal until death
what of these flowers that will wilt with just a burning breath

اختر شیرانی




کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں

اختر شیرانی




خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں
ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

اختر شیرانی