اس کے عہد شباب میں جینا
جینے والو تمہیں ہوا کیا ہے
اختر شیرانی
اٹھتے نہیں ہیں اب تو دعا کے لیے بھی ہاتھ
کس درجہ ناامید ہیں پروردگار سے
اختر شیرانی
وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی
ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا
اختر شیرانی
یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو
میری اور اپنی جوانی کو نہ برباد کرو
اختر شیرانی
زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب
عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا
اختر شیرانی
غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ
یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے
اختر شیرانی
اب جی میں ہے کہ ان کو بھلا کر ہی دیکھ لیں
وہ بار بار یاد جو آئیں تو کیا کریں
اختر شیرانی
اب تو ملیے بس لڑائی ہو چکی
اب تو چلئے پیار کی باتیں کریں
اختر شیرانی
اب وہ باتیں نہ وہ راتیں نہ ملاقاتیں ہیں
محفلیں خواب کی صورت ہوئیں ویراں کیا کیا
اختر شیرانی