EN हिंदी
اکبر الہ آبادی شیاری | شیح شیری

اکبر الہ آبادی شیر

114 شیر

غم خانۂ جہاں میں وقعت ہی کیا ہماری
اک ناشنیدہ اف ہیں اک آہ بے اثر ہیں

اکبر الہ آبادی




آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی

اکبر الہ آبادی




ایک کافر پر طبیعت آ گئی
پارسائی پر بھی آفت آ گئی

اکبر الہ آبادی




دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

I live in this world tho for life I do not vie
I pass through the market but I do not wish to buy

اکبر الہ آبادی




دختر رز نے اٹھا رکھی ہے آفت سر پر
خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا

اکبر الہ آبادی




ڈنر سے تم کو فرصت کم یہاں فاقے سے کم خالی
چلو بس ہو چکا ملنا نہ تم خالی نہ ہم خالی

اکبر الہ آبادی




دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت
ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے

اکبر الہ آبادی




دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا
چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے

اکبر الہ آبادی




دم لبوں پر تھا دل زار کے گھبرانے سے
آ گئی جان میں جان آپ کے آ جانے سے

اکبر الہ آبادی