غم خانۂ جہاں میں وقعت ہی کیا ہماری
اک ناشنیدہ اف ہیں اک آہ بے اثر ہیں
اکبر الہ آبادی
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
اکبر الہ آبادی
ایک کافر پر طبیعت آ گئی
پارسائی پر بھی آفت آ گئی
اکبر الہ آبادی
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
I live in this world tho for life I do not vie
I pass through the market but I do not wish to buy
اکبر الہ آبادی
دختر رز نے اٹھا رکھی ہے آفت سر پر
خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا
اکبر الہ آبادی
ڈنر سے تم کو فرصت کم یہاں فاقے سے کم خالی
چلو بس ہو چکا ملنا نہ تم خالی نہ ہم خالی
اکبر الہ آبادی
دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت
ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے
اکبر الہ آبادی
دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا
چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے
اکبر الہ آبادی
دم لبوں پر تھا دل زار کے گھبرانے سے
آ گئی جان میں جان آپ کے آ جانے سے
اکبر الہ آبادی