EN हिंदी
کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے | شیح شیری
kya hi rah rah ke tabiat meri ghabraati hai

غزل

کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے

اکبر الہ آبادی

;

کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
موت آتی ہے شب ہجر نہ نیند آتی ہے

وہ بھی چپ بیٹھے ہیں اغیار بھی چپ میں بھی خموش
ایسی صحبت سے طبیعت مری گھبراتی ہے

کیوں نہ ہو اپنی لگاوٹ کی نظر پر نازاں
جانتے ہو کہ دلوں کو یہ لگا لاتی ہے

بزم عشرت کہیں ہوتی ہے تو رو دیتا ہوں
کوئی گزری ہوئی صحبت مجھے یاد آتی ہے