EN हिंदी
اکبر الہ آبادی شیاری | شیح شیری

اکبر الہ آبادی شیر

114 شیر

سینے سے لگائیں تمہیں ارمان یہی ہے
جینے کا مزا ہے تو مری جان یہی ہے

اکبر الہ آبادی




تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا
مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر

اکبر الہ آبادی




تحسین کے لائق ترا ہر شعر ہے اکبرؔ
احباب کریں بزم میں اب واہ کہاں تک

اکبر الہ آبادی




تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

اکبر الہ آبادی




تیار تھے نماز پہ ہم سن کے ذکر حور
جلوہ بتوں کا دیکھ کے نیت بدل گئی

اکبر الہ آبادی




طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی

اکبر الہ آبادی




تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے

اکبر الہ آبادی




تم ناک چڑھاتے ہو مری بات پہ اے شیخ
کھینچوں گی کسی روز میں اب کان تمہارے

اکبر الہ آبادی




تمہارے وعظ میں تاثیر تو ہے حضرت واعظ
اثر لیکن نگاہ ناز کا بھی کم نہیں ہوتا

اکبر الہ آبادی