EN हिंदी
کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں | شیح شیری
kahin ummid si hai dil ke nihan KHane mein

غزل

کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں

احمد مشتاق

;

کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں
ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں

موسم گل ہو کہ پت جھڑ ہو بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں

ہم سے مخفی نہیں کچھ رہ گزر شوق کا حال
ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا کھانے میں

ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزہ ہی کچھ اور
ایسی لذت نہ پہنچنے میں نہ رہ جانے میں

نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں

موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھو
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں