EN हिंदी
لبھاتا ہے اگرچہ حسن دریا ڈر رہا ہوں میں | شیح شیری
lubhata hai agarche husn-e-dariya Dar raha hun main

غزل

لبھاتا ہے اگرچہ حسن دریا ڈر رہا ہوں میں

احمد مشتاق

;

لبھاتا ہے اگرچہ حسن دریا ڈر رہا ہوں میں
سبب یہ ہے کہ اک مدت کنارے پر رہا ہوں میں

یہ جھونکے جن سے دل میں تازگی آنکھوں میں ٹھنڈک ہے
انہی جھونکوں سے مرجھایا ہوا شب بھر رہا ہوں میں

ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو
چمکتی دھوپ میں سائے اکٹھے کر رہا ہوں میں

کوئی کمرہ ہے جس کے طاق میں اک شمع جلتی ہے
اندھیری رات ہے اور سانس لیتے ڈر رہا ہوں میں

مجھے معلوم ہے اہل وفا پر کیا گزرتی ہے
سمجھ کر سوچ کر تجھ سے محبت کر رہا ہوں میں