سبھی کہیں مرے غم خوار کے علاوہ بھی
کوئی تو بات کروں یار کے علاوہ بھی
بہت سے ایسے ستم گر تھے اب جو یاد نہیں
کسی حبیب دل آزار کے علاوہ بھی
یہ کیا کہ تم بھی سر راہ حال پوچھتے ہو
کبھی ملو ہمیں بازار کے علاوہ بھی
اجاڑ گھر میں یہ خوشبو کہاں سے آئی ہے
کوئی تو ہے در و دیوار کے علاوہ بھی
سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقیں آیا
کہ پھول کھلتے ہیں گل زار کے علاوہ بھی
کبھی فرازؔ سے آ کر ملو جو وقت ملے
یہ شخص خوب ہے اشعار کے علاوہ بھی
غزل
سبھی کہیں مرے غم خوار کے علاوہ بھی
احمد فراز