ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے
عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
کم نہیں طمع عبادت بھی تو حرص زر سے
فقر تو وہ ہے کہ جو دین نہ دنیا رکھے
ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر
جا خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے
یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فرازؔ
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
غزل
ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
احمد فراز