نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے
پھر آج دکھ بھی زیادہ ہے کیا کیا جائے
ہمیں بھی عرض تمنا کا ڈھب نہیں آتا
مزاج یار بھی سادہ ہے کیا کیا جائے
کچھ اپنے دوست بھی ترکش بدوش پھرتے ہیں
کچھ اپنا دل بھی کشادہ ہے کیا کیا جائے
وہ مہرباں ہے مگر دل کی حرص بھی کم ہو
طلب کرم سے زیادہ ہے کیا کیا جائے
نہ اس سے ترک تعلق کی بات کر پائیں
نہ ہمدمی کا ارادہ ہے کیا کیا جائے
سلوک یار سے دل ڈوبنے لگا ہے فرازؔ
مگر یہ محفل اعدا ہے کیا کیا جائے
غزل
نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے
احمد فراز