پناہیں ڈھونڈ کے کتنی ہی روز لاتا ہے
مگر وہ لوٹ کے زلفوں کی سمت آتا ہے
سلگتی ریت ہے اور ٹھنڈے پانیوں کا سفر
وہ کون ہے جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے
ہے انتظار مجھے جنگ ختم ہونے کا
لہو کی قید سے باہر کوئی بلاتا ہے
جو مشکلوں کے لیے حل تلاش لایا تھا
کھلونے بانٹ کے بچوں میں مسکراتا ہے
تمام راستے اب ایک جیسے لگتے ہیں
گمان راہ میں شکلیں بدل کے آتا ہے
شکار دھند کا صحرا نورد کرتے ہیں
فریب کھانا کہاں دوسروں کو آتا ہے
غزل
پناہیں ڈھونڈ کے کتنی ہی روز لاتا ہے
آشفتہ چنگیزی