ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے
خیال آتا ہے رہ رہ کے لوٹ جانے کا
سفر سے پہلے ہمیں اپنے گھر جلانے تھے
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے
تلاش جن کو ہمیشہ بزرگ کرتے رہے
نہ جانے کون سی دنیا میں وہ خزانے تھے
چلن تھا سب کے غموں میں شریک رہنے کا
عجیب دن تھے عجب سرپھرے زمانے تھے
غزل
ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے
آشفتہ چنگیزی