EN हिंदी
مسکراہٹ شیاری | شیح شیری

مسکراہٹ

18 شیر

ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا
دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے

آنس معین




اور بھی کتنے طریقے ہیں بیان غم کے
مسکراتی ہوئی آنکھوں کو تو پر نم نہ کرو

عبدالعزیز فطرت




جیسے پو پھٹ رہی ہو جنگل میں
یوں کوئی مسکرائے جاتا ہے

احمد مشتاق




وہاں سلام کو آتی ہے ننگے پاؤں بہار
کھلے تھے پھول جہاں تیرے مسکرانے سے

احمد مشتاق




مرے حبیب مری مسکراہٹوں پہ نہ جا
خدا گواہ مجھے آج بھی ترا غم ہے

احمد راہی




وہ مسکرا کے کوئی بات کر رہا تھا شمارؔ
اور اس کے لفظ بھی تھے چاندنی میں بکھرے ہوئے

اختر شمار




اب اور اس کے سوا چاہتے ہو کیا ملاؔ
یہ کم ہے اس نے تمہیں مسکرا کے دیکھ لیا

آنند نرائن ملا