EN हिंदी
مسکراہٹ شیاری | شیح شیری

مسکراہٹ

18 شیر

دھوپ نکلی ہے بارشوں کے بعد
وہ ابھی رو کے مسکرائے ہیں

انجم لدھیانوی




مسکرا کر دیکھ لیتے ہو مجھے
اس طرح کیا حق ادا ہو جائے گا

انور شعور




یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا

اصغر گونڈوی




نہیں عتاب زمانہ خطاب کے قابل
ترا جواب یہی ہے کہ مسکرائے جا

حفیظ جالندھری




ہمارے گھر سے جانا مسکرا کر پھر یہ فرمانا
تمہیں میری قسم دیکھو مری رفتار کیسی ہے

حسن بریلوی




اتنا رویا ہوں غم دوست ذرا سا ہنس کر
مسکراتے ہوئے لمحات سے جی ڈرتا ہے

حسن نعیم




محفل میں لوگ چونک پڑے میرے نام پر
تم مسکرا دئے مری قیمت یہی تو ہے

ہاشم رضا جلالپوری